Skip to content

ٹی ٹی آر ایف کی طرف سے بے بنیاد الزامات کے جوابات

حال ہی میں پاکستان تحریکِ انصاف اپر چترال کے ایک عہدیدار نے بونی بزند روڈ کے منصوبے اور اس سڑک کی جلد اور معیاری تعمیر کے لیے تحریک چلانے والے بونی بزند روڈ فورم پر بے بنیاد اور بے سروپا الزامات لگائے، جن کا جواب دیا جانا ضروری ہے۔

بونی بزند روڈ وفاقی حکومت کا 28 کلومیٹر کا منصوبہ ہے، جسے 36 کروڑ روپے کی لاگت سے مکمل کیا جانا تھا مگر سولہ سال گزرنے کے باوجود ایک کلومیٹر سڑک بھی پی سی ون کے مطابق مکمل نہیں ہوئی ہے۔ اس منصوبے کی ایگزیکیوشن صوبائی محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کے پاس ہے، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ منصوبے کے لیے فنڈ وفاقی حکومت فراہم کر رہی ہے جبکہ اس کی تعمیر، معیار اور کام۔کی جلد تکمیل یا تاخیر کی تمام تر ذمہ داری صوبائی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔

گزشتہ 13 سال سے صوبے میں تحریکِ انصاف کی حکومت ہے اور ان کے تینوں ادوارِ حکومت میں محکمہ سی اینڈ ڈبلیو بھی پی ٹی آئی کے وزرا کے پاس ہی رہا جن میں موجودہ وزیراعلی سہیل أفریدی بھی شامل ہے۔اس لیے پی ٹی آئی حکومت کو سب سے پہلے اس بات کا جواب دینا چاہیے کہ وہ 28 کلومیٹر کی سڑک کا منصوبہ 13 سال میں کیوں مکمل نہ کر سکی؟ صوبائی حکومت اور مقامی ایم پی اے اور ڈپٹی اسپیکر کے ترجمان کو بھی سب سے پہلے اس سوال کا جواب دینا چاہیے۔ یہ صوبے میں براجمان پی ٹی أئی حکومت کے کرپشن فری، کلین حکومت اور گڈ گورننس کے دعوؤں پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔

ترجمان نے برج فنانسنگ کے معاملے کو اچھال کر دھول اڑانے کی کوشش کی ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ برج فنانسنگ صوبائی حکومت کو عدالتی دباؤ اور سڑکوں پر مسلسل احتجاج کے نتیجے میں کرنا پڑی۔ مسلسل ڈیڑھ سال تک علاقے کے لوگ سراپا احتجاج رہے اور پشاور ہائی کورٹ سوات بینچ کے ڈویژن بینچ نے صوبائی حکومت کی نااہلی اور محکمہ سی اینڈ ڈبلیو میں کرپشن پر باقاعدہ سماعت شروع کی۔ عدالت نے سی اینڈ ڈبلیو کے چیف انجینئرز، سیکریٹری اور دیگر اعلیٰ حکام کو طلب کر کے اس منصوبے کی تکمیل کا ورک پلان طلب کیا۔

اس دوران معزز ججز نے واضح ریمارکس دیے کہ پنجاب میں 28 کلومیٹر کی سڑک ایک سے ڈیڑھ ماہ میں مکمل ہو جاتی ہے جبکہ خیبرپختونخوا میں یہ منصوبہ 16 سال سے زیرِ تعمیر کیوں ہے؟ یہ عدالتی ریمارکس بھی ریکارڈ پر ہیں کہ محکمہ سی اینڈ ڈبلیو نے بونی بزند روڈ کے منصوبے کو کمائی کا ذریعہ بنا رکھا ہے، جس کی عدالت اجازت نہیں دے گی۔

یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کے موجودہ ایکسین ڈپٹی اسپیکر کے چنیدہ اور انہی کے لائے ہوئے ہیں، جس کی تصدیق اس وقت کے سی اینڈ ڈبلیو کے وزیر اور موجودہ وزیرِ اعلیٰ سہیل آفریدی نے ٹی ٹی آر ایف کے بانی وقاص ایڈوکیٹ کے ساتھ گفتگو میں خود کی، اور اس کے ثبوت آج بھی موجود ہیں۔

ان حالات میں عدالتی احکامات کے تحت صوبائی حکومت نے برج فنانسنگ کی منظوری دی، جس پر ٹی ٹی آر ایف نے باقاعدہ بیان کے ذریعے صوبائی حکومت کا شکریہ ادا کیا، کیونکہ یہ عدالتی فیصلہ ماننے اور سڑک کی جلد تعمیر کی جانب پہلا مثبت قدم تھا جو صوبائی حکونت نے اٹھایا۔ اگر ٹی ٹی آر ایف تحریکِ انصاف مخالف یا صوبائی حکومت کے خلاف کوئی تحریک ہوتی تو ہم ہرگز حکومت کا شکریہ ادا نہ کرتے۔

ڈپٹی اسپیکر کے ترجمان کا یہ دعویٰ کہ برج فنانسنگ کی منظوری کے بعد استارو سے رائین تک سڑک پکی ہوئی، صریحاً غلط بیانی ہے۔ برج فنانسنگ تو ستمبر میں منظور ہوئی جبکہ ورکوپ کے آخر تک جو اسفالٹ کا کام ہوا، وہ اس سے پہلے مکمل ہو چکا تھا۔ استارو سے ورکوپ تک کئی مقامات پر پی سی سی کے نام پر کام ادھورا چھوڑا گیا، جس کی نشاندہی ٹی ٹی آر ایف نے بارہا کی، مگر ڈپٹی اسپیکر کے لائے گئے ایکسین نے متعلقہ ٹھیکیدار سے یہ کام نہیں کروائے۔

اگر ڈپٹی اسپیکر صاحبہ واقعی سنجیدہ ہوتیں تو وہ ایکسین اور ٹھیکیدار کو پابند کر کے یہ کام فوراً مکمل کراتیں اور عوام کو سہولت فراہم کرتیں، مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ ستمبر میں برج فنانسنگ کی منظوری کے بعد ٹھیکیدار کو کاسٹ ایسکلیشن کے نام پر بھاری ادائیگی تو کر دی گئی، مگر اسے فوری طور پر کام شروع کرنے کا پابند نہیں بنایا گیا، حالانکہ سردیوں کا موسم قریب تھا۔ 28 کروڑ روپے کی خطیر رقم کاسٹ ایسکیلیشن کے نام پر بیج فنانسنگ کے 50 کروڑ میں سے فوری طور پر ٹھیکیدار کو ادا کی گئی۔۔ اس خطیر ادائیگی کے باوجود کام ٹھیکیدار کے فوری شروع نہ کراکر ستمبر اور اکتوبر کا قیمتی وقت ضائع کر دیا گیا، جس دوران اسفالٹ اور کمپیکشن کا خاطر خواہ کام ہو سکتا تھا۔

ٹی ٹی آر ایف اور عوام کے شدید احتجاج کے بعد اکتوبر کے آخر میں اسفالٹ کا کام شروع کیا گیا، مگر کچھ ہی عرصے بعد سردی کا بہانہ بنا کر کام بند کر دیا گیا، اور چند دن بعد کمپیکشن کی مشینری بھی سائٹ سے ہٹا لی گئی۔ پچھلے سال ٹھیکیدار نے 29 دسمبر تک کمپیکشن کا کام کیا تھا، مگر اس سال ڈپٹی اسپیکر صاحبہ اور ان کے من پسند ایکسین کی عدم دلچسپی اور ٹھیکیدار کی سہولت کاری کے باعث دسمبر کے آغاز میں ہی کام روک دیا گیا۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نہ تو ٹھیکیدار کی ترجیح اس منصوبے کی بروقت تکمیل ہے اور نہ ہی محکمہ سی اینڈ ڈبلیو، اس کے ایکسین اور ان کے سیاسی سرپرستوں کی، کیونکہ جتنی تاخیر ہو گی، اتنا ہی کاسٹ ایسکلیشن کے نام پر مزید رقوم بنائی جا سکیں گی۔

ڈپٹی اسپیکر کے ترجمان نے پچھلے سال سی اینڈ ڈبلیو کی جانب سے پیشگی ادائیگی سے ہی انکار کیا ہے، حالانکہ سی اینڈ ڈبلیو کے ایکسین اور دیگر حکام کی جانب سے ٹی ٹی آر ایف کے ساتھ کیے گئے آدھا درجن تحریری معاہدے موجود ہیں، جن میں پیشگی ادائیگی کا واضح اعتراف موجود ہے۔ اور ان معاہدوں میں آئندہ ادائیگی ٹی ٹی آر ایف اور علاقائی عمائدین کو اعتماد میں لے کر کرنے کی یقین دہانی کی گئی لیکن ڈپٹی سپیکر کے بلیو أئیڈ ایکسین نے اس پر کبھی عملدرأد نہیں کیا۔ اس وقت کے ڈی سی، ضلعی انتظامیہ اور ای اے سی موڑکھو تورکھو کی انکوائری رپورٹ بھی اس کرپشن کی گواہ ہے، جس میں موجودہ ایکسین کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی تھی۔ یہ رپورٹ کمشنر مالاکنڈ کو بھیجی گئی، مگر چونکہ ایکسین ڈپٹی اسپیکر کے پسندیدہ ہیں، اس لیے کوئی کارروائی نہ ہو سکی۔ ان تمام شواہد کے باوجود کرپشن سے انکار کرنا محض ڈھٹائی ہے۔

ترجمان کی جانب سے ٹی ٹی آر ایف کے بانی وقاص ایڈوکیٹ اور ان کے ساتھیوں پر ڈپٹی اسپیکر صاحبہ کے خلاف مہم چلانے کا الزام اس قابل نہیں کہ اس پر زیادہ وقت ضائع کیا جائے۔ اگر اس الزام میں ذرا سی بھی صداقت ہوتی تو تورکھو تریچ یونین کونسل کے مخلص اور سرگرم پی ٹی آئی کارکن آج بھی ٹی ٹی آر ایف کے ساتھ کھڑے نظر نہ آتے۔ آج بھی ٹی ٹی آر ایف کی صفِ اول میں پی ٹی آئی کے سرگرم اور مخلص کارکن شامل ہیں، کیونکہ ٹی ٹی آر ایف ایک غیر سیاسی تحریک ہے، جس میں ہر مسلک، ہر طبقے اور ہر سیاسی نظریے کے لوگ شامل ہیں، جن کا واحد مقصد علاقے کی ترقی ہے۔

ترجمان نے وقاص ایڈوکیٹ کے جس وائس میسج کا حوالہ دیا ہے، وہ بھی پی ٹی آئی کی منظم پروپیگنڈا مہم کا حصہ ہے۔ یہ کوئی پہلی بار نہیں کہ پی ٹی آئی نے وائس میسجز کو سیاق و سباق سے ہٹا کر یا ایڈیٹ کر کے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہو۔

مذکورہ وائس میسج میں کوئی بات ایسی نہیں جو غلط یا حقائق کے منافی ہو۔ 36 کروڑ روپے کے منصوبے کو ایک ارب 74 کروڑ روپے تک پہنچانا محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ رواں سال وفاقی حکومت نے بونی بزند روڈ کے لیے صرف 76 لاکھ روپے مختص کیے تھے اور اگلے بجٹ تک اس میں اضافے کا کوئی امکان نہیں تھا، اسی لیے عدالت کے حکم پر برج فنانسنگ کی گئی، جس پر ہم صوبائی حکومت کے شکر گزار ہیں۔ تاہم اس حقیقت کو مسخ کر کے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا پی ٹی آئی کا وطیرہ بن چکا ہے، جو نہ صرف قابلِ افسوس بلکہ قابلِ مذمت بھی ھے!!!!

ٹی ٹی آر ایف