Skip to content

سینٹ کے اجلاس میں سینیٹر فلک ناز کے بیان پر ٹی ٹی آر ایف کا اظہارِ افسوس

تورکھو(ٹی ٹی آر ایف)تورکھو تریچ روڈ فورم نے جمعرات کو سینیٹر فلک ناز چترالی کی جانب سے بونی بزند روڈ کے حوالے سے سینیٹ میں دیے گئے بیان پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے اسے حقائق کے منافی قرار دیا ہے۔ٹی ٹی آر ایف کا کہنا تھا کہ جمعرات کو سینیٹر فلک ناز چترالی نے پارلیمان کے ایوانِ بالا میں بونی بزند روڈ کے حوالے سے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ اس سڑک پر کام زور و شور سے جاری ہے اور ان کے گاؤں (رائین) تک پکی سڑک مکمل ہو چکی ہے۔ہم یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں کہ اس سڑک پر کام زور و شور سے نہیں، بلکہ علاقے کے عوام کے شور و احتجاج کے باعث کچھوے کی رفتار سے جاری ہے۔ کام کی کوالٹی کے حوالے سے بھی علاقے کے لوگوں کو شدید تحفظات ہیں۔سینیٹر فلک ناز چترالی ہماری بہن اور بیٹی ہیں اور علاقے کی بیٹی ہونے کے ناطے، نیز پاکستان تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر، انہیں اس معاملے میں سرگرم کردار ادا کرنا چاہیے تھا۔ لیکن ہم افسوس کے ساتھ اپنی بہن و بیٹی کی خدمت میں عرض کرنا چاہتے ہیں کہ انہوں نے علاقے کے لوگوں کی توقعات کے مطابق وہ کردار ادا نہیں کیا جس کی ہم ان سے امید رکھتے تھے۔ہماری بہن نے کہا کہ رائین تک اسفالٹ یعنی پکی سڑک مکمل ہو گئی ہے، لیکن یہ حقیقت نہیں ہے۔ کاغلشت کے مقام پر دو کلومیٹر سڑک اب بھی کچی ہے۔ شوچ کے مقام پر بھی تقریباً دو کلومیٹر سڑک کچی ہے، اور اس حصے میں تو پی سی ون کے مطابق سڑک کی چوڑائی پوری نہیں۔ بعض مقامات پر سڑک کی چوڑائی 32 فٹ (جو کہ پی سی ون کے مطابق ہونا چاہیے) کے بجائے صرف 17 سے 19 فٹ ہے۔ اس کے بعد دیغیڑی کے مقام پر ایک کلومیٹر سے زائد سڑک کچی پڑی ہے، جس پر کمپیکشن بھی نہیں ہوا ہے۔ ورکوپ میں نالے کے ساتھ سڑک کا پورشن کچا ہے جسے پی سی سی کیا جانا ہے، مگر ابھی تک نہیں کیا گیا۔ ورکوپ اور رائین میں مختلف مقامات پر کئی حصے کچے ہیں جن پر نہ اسفالٹ ہوا ہے اور نہ ہی مناسب کمپیکشن کیا گیا ہے۔ جہاں تک رائین کا تعلق ہے، رائین نالے تک سڑک نامکمل اسفالٹ ہوئی ہے اور اس سے آگے سڑک کچی ہے۔ رائین گاؤں کا بڑا حصہ ابھی تک اسفالٹ نہیں ہوا۔اس سڑک کی جلدی تعمیر کا مطالبہ کرنے پر علاقے کے بزرگوں، اساتذہ ور ریٹائرڈ فوجی اور طلبا پر تین ایف آئی آر ہوچکے ہیں جن میں ایک انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت بھی درج کیا گیا ہے۔ یہ تمام کام ان کی صوبائی حکومت اور انتظامیہ نے کیا ہے لیکن ہماری بہن نے اس حوالے سے کوئی کردار ادا نہیں کیا ہے۔چونکہ یہ سڑک 16 سال سے زیرِ تعمیر ہے اور سینیٹر صاحبہ نے خود ایوان میں اعتراف کیا کہ یہ سڑک محکمہ سی اینڈ ڈبلیو تعمیر کروا رہا ہے، اور چونکہ صوبے میں گزشتہ 13 سال سے مسلسل پی ٹی آئی کی حکومت ہے، اس لیے اس منصوبے میں غیر معمولی تاخیر اور مبینہ بدعنوانی کی ذمہ داری بھی پی ٹی آئی کو قبول کرنی چاہیے۔ اس حوالے سے ہماری بہن کا کردار زیادہ فعال اور مؤثر ہونا چاہیے تھا، لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔ ایوانِ بالا میں جب یہ معاملہ اٹھا، تو انہیں چاہیے تھا کہ وہ اپنے علاقے کے لوگوں کے تحفظات، خدشات اور زمینی حقائق سے ایوان کو آگاہ کرتیں۔ہم اپنی بہن سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اس منصوبے کی اصل صورتِ حال سے مکمل آگاہی حاصل کریں اور صوبائی محکمہ سی اینڈ ڈبلیو اور اس کے کرپٹ ایکسین کے خلاف کارروائی کریں۔ ساتھ ہی صوبائی حکومت اور موجودہ وزیرِاعلیٰ سہیل آفریدی سے رابطہ کرکے اس منصوبے کی جلد اور معیاری تکمیل میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔28 کلومیٹر کی اس سڑک، جسے 36 کروڑ روپے میں مکمل ہونا تھا، پر ایک ارب 60 کروڑ سے زائد رقم خرچ ہو چکی ہے، اور اس کے باوجود سڑک کا ایک بھی کلومیٹر پی سی ون کے مطابق مکمل نہیں۔ یہ صورتحال پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت، اس کی گُڈ گورننس اور تبدیلی کے دعوؤں پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ہم امید کرتے ہیں کہ سینیٹر فلک ناز صاحبہ ہماری معروضات پر غور کریں گی اور صوبائی حکومت و متعلقہ محکمے کے افسران سے رابطہ کرکے اس حوالے سے کوئی تعمیری کردار ادا کریں گی۔